علم الکلام ایسا علم جس کا وجود تاریخ کی گرد نے بدل کر حقیقت سے دور کر دیا . اول تو آج اس علم کی پہچان ہی نہی رہی, اور اگر کچھ کو علم ہے تو وہ اسے انگریزی کے لفظ theology کا مترادف سمجھتے ہیں. جس کا مطلب ہے ایسا علم جس میں صرف رب کی ذات اور صفات پر بحث کی جائے.
تو پھر کیا ہے علم الکلام ؟
کلام کا مطلب ہے, بات چیت, گفتگو. گزرے زمانوں کی بات ہے, جب کسی ملک یا علاقے کی طرف سفیر یا ایلچی بھیجنا ہوتا تو مختلف پہلوؤں کا خیال رکھا جاتا تھا, جس میں سے اک اس شخص کا علم الکلام پر عبور بھی شامل تھا.
کیوں کہ یہ علم انسان کو گفتگو میں ماہر بناتا تھا. یہ سکھاتا ہے کہ کیسے کم سے کم الفاظ میں جامع بات کرنی ہے, درست الفاظ کا چناؤ, موقع اور وقت کی نزاکت کے اعتبار سے دلیل اور منطق کا استعمال ہی اس علم کا خاصہ تھا.
اسلامی تہذیب میں شروع سے ہی علم الکلام پر توجہ دی جاتی تھی, لوگ اس گفتگو کے فن کو سیکھنے کے لیے دور دراز کے علاقوں کا سفر کرتے تھے. چونکہ اس دور میں مختلف علوم پر اک وقت میں ہی لوگوں کو عبور ہوتا تھا, اور زیادہ تر اس کا استعمال اسلام اور فقعہ کے مسائل کو سمجھنے میں کیا جاتا رہا ہے, یہی وجہ ہے کہ اس علم کی اپنی حقیقی شناخت گم ہوگئی.
اور آج ایسا کوئی علم نہیں جو مختص ہو طرز گفتگو سکھانے کے لیے.. اور اس کے کچھ پہلوں کو آج کے جدید دور میں
critical thinking
کہا جاتا ہے.
یہی وجہ ہے کہ آج لوگوں کو بات کرنا ہی نہی آتا, انہیں یہی اندازہ نہی ہو پاتا کہ کس سوال کے جواب میں کونسی دلیل دی جائے… اس کی اک وجہ یہ بھی ہے کہ اب یہ سکھایا ہی نہیں جاتا اور بعد میں ہم کُڑ رہے ہوتے ہیں لوگوں کی کم فہمی پر.
تو محترم التجا ہے کہ خود بھی سیکھیں اور اپنے طلباء کو بھی سکھائیں.. اور اس کے لیے آپ کو خود ہی محنت کرنی ہوگئی کیوں کہ اب پہلے کی طرح اسے علیدہ سے تو سکھایا نہی جاتا. اور نہی تو آپ بطور معلم کم از کم

thinking skills and mind development

ہی سیکھ کراور سکھاکر اس قوم پر احسان کریں…
~♾[Infinity Decoder]™.