میں نے کافی دفعہ سوچا ہے, میرے دل میں کئ بار خیال آیا کہ رب ایسا بھی تو نظام بنا سکتا تھا کہ ہمیں بولنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی, بس اگلے کو دیکھ کر ہی باتیں سمجھ آجاتیں, اس کے احساسات ہم پر اترتے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے, ہم اس کی سمجھ لیتے اور وہ ہماری کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں. لیکن ایسا ہوا نہیں, بولنے کی طاقت دی گئی..
کچھ تو ایسا ہوگا ان الفاظ میں کہ بولنے کی طاقت دی گئی, اور پھر اس کے ساتھ ساتھ جو ہے وہ یہ کہ صرف کتابیں ہی نہیں آئی ہیں, ورنہ بھیج بھی تو سکتا تھا کسی فرشتے کے ذریعے یا ویسے ہی, یہ لیں کتاب, تمام اصول اور قانون لکھ دئیے ہیں تو اس کی پیروی کرو…
جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام وضاحت دی ہیں اپنی سنت کے ذریعے تو وہ کتاب کے اندر بھی آسکتی تھیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا..اللہ نے نبی بنائے بھی بھیجے بھی اور ان کے ساتھ جو ہوا وہ سارا قصہ ہی الگ ہے,, سو کچھ وجہ تو ہوگی, اور آج جو ہم ہیں اس وجہ کو سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں…
اب دیکھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہی ہیں , اور چالیس سال تک بھی تو نبی ہی تھے ٹھیک ہے کہ ظاہری طور پر نبوت کا اظہار نہی ہوا … لیکن آپ نے پڑھا ہوگا کہ انتہائی درجے کا اخلاق حسنہ, لوگوں کی مدد, سچ بولنا, عبادت کرنا وغیرہ….لیکن آس پاس قریبی لوگوں کے علاوہ کسی نے اثر نہیں لیا کہ معاشرے میں اتنا نیک انسان ہے, جو غار تک جاتا ہے, جو بولنے میں اتنا سچا, اور امانتدار, اور جسکا اخلاق تکمیل کی حد کو چھو رہا ہے, کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا,, لیکن جب وحی کا سلسلہ شروع ہوا اس کے بعد بھی وہی انسان ہے کہ جس میں جتنی خاصیت پہلے تھی وہی ہیں لیکن اب جو کہ ظاہری طور پر ایک چیز کا اضافہ ہوگیا ہے ,
نبوت, امامت اپنی جگہ پر
وہ ایک ظاہری جدوجہد ہے, جسمانی قسم کی جدوجہد.. جس کی بدولت اک پوری ریاست بنتی ہے, اور یہ چیزیں ہم میں کم ہیں بلکہ ہیں ہی نہیں….
ہم لوگوں کو اچھا کرنا چاہتے ہیں, لکھ کر ہم رائٹر بن گئے ہیں, ہم لکھ لکھ کر اچھائی پھیلارہے ہیں, کوئی کہاں سے لکھ دیتا ہے اور کوئی کہاں سے اور وہ سمجھتا ہے کہ جی ہم نے اپنا فرض پورا کرلیا ہے اور لوگ اچھے ہوجائیں گے اور ہمارا لکھا ہوا اتنی طاقت رکھتا ہے کہ پڑھنے والا بدل جائے گا,,,اور ایسا کچھ نہیں ہے, یہ جو لکھا ہوا ہے یہ صرف ان پر اثر کرتا ہے جن میں پہلے سے ہی احساس کا مادہ موجود ہے, پر معاشرے میں بہت سا طبقہ ایسا بھی ہے جس پر لکھا ہوا کام نہیں کرتا ہے اور وجہ یہ کہ یا تو وہ لکھ پڑھ نہیں سکتے اور اگر وہ یہ کر بھی سکتے ہیں تو ان میں اس چیز کی کمی ہے.. اور رہی بات بولنے کی تو بولنا بھی بہت ضروری نہیں کہ صرف بولا جائے اور بولنا ہی کام دے,,, درحقیقت یہ مطابقت ہے تمام اجزاء کی جن کو ملا کر آپس میں جمع کرکے لاگو کیاجاتا ہے تو محنت حاصل ہوتی ہے……
لکھنا لکھانا, اور اس کے بعد ایک جسمانی جدوجہد ہے جس میں آپ کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور پھر بھی آپ جدوجہد جاری رکھتے ہو تو پھر قربانیوں کے بعد جاکر پھل ملتا ہے اور ہم میں اس چیز کی کمی ہے,, ہم اِدھر کی خبر اْدھر لگا دیتے ہیں اْدھر کی خبر اِدھر لگادیتے ہیں اور پھر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیاہے…
برائی کے بارے میں صرف بات کرنا دراصل اس برائی کا ساتھ دینا ہےکیونکہ اس سے برائی کو بڑاھاوا ملتا ہےاور یہ میڈیا یہی کام تو کر رہا ہےاور ہم بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں,, کچھ برا ہوا دیکھا اور اسے اور پھیلایا,مزید پھیلایا اور پھیلایا بھی کس انداز میں!! ..کہ دیکھیں جی یہ تو بہت برا ہوگیا اور اتنی تفصیل میں بتانا جتنی تفصیل میں کبھی اچھائی نہیں بتائی,,اور آخر میں ہم کہتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہئیے اس طرح کا کام جو ہم کررہےہیں درحقیقت ہم برائی کو بڑھاوا دے رہیں ہوتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ ہم تو معاشرے کا سچ سامنے لا رہے ہیں, یہ پاگل اتنا نہی جانتے کے سچائی کے چکر میں ہم لوگوں کے زہن میں معاشرے کی کمزوری دکھا کر اسے بھی راستہ دے رہے ہوتے ہیں, اور اگلے کو لگتا ہے لو انصاف تو ہے نہی, تو مجھے کسی نے کیا کہنا میں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ ڈھولوں.
یہ شاید میں نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا کہ پاکستان میں کچھ ایسا واقعہ ہوا تھا جس کے بعد میں نے اخبار کا کئی ماہ تک جائزہ لیا تھا تو کافی ماہ بعد میں نے دیکھا کہ اس واقعے کے بعد اسی طرح کے واقعات اور بڑھنا شروع ہوگئے,,اب وجہ یہ کہ اس کا چرچا بڑھتا جارہاہے….
دیکھیں جس طرح اچھائی کے اثرات ہوتے ہیں برائی کے بھی اس طرح کے پر الٹ اثرات ہوتے ہیں, اب برائی کا تذکرہ جتنا کرتے جاؤگے وہ اپنا اثر کرے گی…
اب شیطان جسے ہم بڑا برا مانتے ہیں تو کبھی بھی ہمیں وہ زبردستی برا کام نہیں کرواسکتا وہ صرف آئیڈیاز پیدا کرتا ہے, اس کا کام یہ کہ وہ انسان کو برا کام کرنے کے خیالات دیتا ہے, سارے امکانات دکھاتا ہے, اس کے فائدے دکھاتا ہے, یہ ساری چیزیں کرتا ہے لیکن آمادہ انسان خود ہوتا ہےتب وہ برائی کرتا ہے….
یہی حال ہم نے یہاں کر رکھا ہے, اصل میں ہم ہی بڑاھاوا دے رہے ہوتے ہیں لوگوں میں برائی کا, چلو وہ لوگ جو پہلے ہی نرم ہیں وہ تو اس سے دکھ پکڑیں گے, نفرت کریں گے, دور ہونگے,,, لیکن جو ایسے نہیں ہیں ان کی اس سے اور حوصلہ افزائی ہوگی اور انصاف تو پہلے ہی ہمارے معاشرے میں لیٹ رہا ہے, ان لوگوں کو موقع مل جاتا ہے کہ اس میں کچھ نہیں ہوا چلو ہم بھی ایسا کر لیتے ہیں…
ان چیزوں میں تھوڑا احتیاط کِیا کریں, آپ کچھ بھی شیئر کیا کریں تو اس سے پہلے تھوڑا سوچ لیں سمجھ لیں..غیبت کی سزا شاید سننے والے کے لیے بھی اسی لیے رکھی گئی ہے, کہ اگلا ڈر کے دور رہے, مجھے تو اس میں بھی ویسی ہی حجت نظر آتی ہے, کے سننے والا بھی اس برائی کو اختیار کر سکتا ہے جس کا تذکرہ ہوا غیبت میں,
چلو میری باتیں شاید آپ کو غلط لگیں, تو اپنے پسندیدہ گوروں کو پڑھ لیں یا سن لیں, بس اک مثال دیتا ہوں, نفسیات کے تجربات میں بوبو گڑیا کے تجربات  دیکھ لیں, 1961 میں بینڈورا  نے کیے تھے,
اس میں وہ ثابت کرتا ہے کہ جو بچے دیکھیں گے, سنیں گے, وہ اسی سے سیکھیں گے اور ویسا کریں گے.
اب جب انھوں نے جو معاشرے سے سیکھا ہے اگر وہ لوٹا رہے ہیں, تو بجائے اس کے کہ اس سے سیکھ پکڑیں, الٹا معاشرے میں مزید پھوٹ ڈالنے کیلئے کچھ لوگ مرد اور عورت کو آمنے سامنے مقابلے پر لانے کی کوشش کرتے ہیں… اور عوام مزید بےوقوف بن کے اصل مسئلے کو بھول جاتے ہیں, دوبارہ سے اسی محنت سے جت جاتے ہیں آنے والی نسل میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے..
خود ہی آگ لگا رہے ہیں اور خود ہی رو رہے ہیں…
اور یہ چیزیں اس طرح سرایت کر رہی ہیں کہ برائی کا اچھائی سے فرق ختم کیا جا رہا ہے.
یہی وہ وقت ہے کہ ہمیں اب اچھے خیالات, اچھی باتوں سے بھی اوپر اٹھ کر عملی جسمانی طور پر اس ناسور کے خلاف کھڑا ہونا ہے… ان سب کے خلاف جو ہمارے ملک کے نوجوانوں کو اور ہماری اگلی نسل کو نا محسوس طریقے سے زنگ آلودہ کر رہے ہیں.
اور حال یہ ہے کہ تباہ بھی وہی کررہے ہیں اور مگرمچھ کے آنسو بھی وہی بہا رہے ہیں…
وقت ہے سنبھل جائیں, اگلی نسل کیسی ہوگی اس کا دارومدار ہمارے اعمال پر ہے.. اپنے کندھوں پر ملک کی زمہ داری محسوس کریں, اسے قبول کریں اور عملی اقدامات اٹھائیں.

©Infinity Decoder