تعمیرِ خودی

نظریے کا تعلق ہمیشہ سے سوچ کے ساتھ رہا ہے ناکہ الفاظ کے ساتھ . الفاظ کسی حد تک سوچ کو اک مادی وجود تو بخشتے ہیں ، پر یہ الفاظ اپنی محدودیت میں سوچ کی لامحدودیت کو سمو نہی پاتے ،
اور اگر کوئی ماہرِ كلام یہ کام کر بھی لے . وہ خیالات کو الفاظ میں ڈھال دے تب بھی یہ انتہائی مشکل ہے کے ان الفاظ کو پڑھنے یا سننے والا اُسی سوچ کے درجہ میں پہنچ پائے اور اس پر انہی خیالات کا نزول ہو ، جو صاحب كلام کے تھے .
یہی وجہ ہے کے ہَم لغت کی موجودگی میں بھی کسی خاص الفاظ کے معنی تو جان لیتے ہیں پر ہَم ان لفظوں کو واپس ان خیالات میں ڈھال کے خود پر ظاہر نہی کر سکتے . اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر ایسا کرنا کیوں مشکل ہے ؟
▫️ایک تو ہماری وہ جسمانی محدودیت جو ہمیں اک خاص حد سے آگے بڑھنے نہی دیتی, پر یہ رکاوٹ کسی طور پر بھی پریشانی نہی کہ اس فانی دنیا میں سب پر اس کا اطلاق اک سا ہوتا ہے. دوسرا روحانی پہلو . تو ان دونوں کو تو ابھی ہم زیر بحث نہی لاتے.
▫️ہم باقی تمام پہلوؤں کو اس وقت ترک کر کے خالص اک سوچ کی ارتقا کا سائنسی پہلو دیکھیں گے.
تعمیرِ خودی کی اساس سوچ ہے, اور سوچ کے بہت سے درجے ہیں اور ہر دماغ میں سوچ اک ارتقائی عمل سے گزر کر وقت کے ساتھ درجہ بہ درجہ تعمیری یا تخریبی رخ اختیار کرتی ہے 
ماحول, چیزوں اور لوگوں سے غیر ضروری لگاؤ کا شمار سوچ کی ارتقا کی رکاوٹوں میں ہوتا ہے. کیوں کہ یہ لگاؤ ہمیں جانب دار بنا دیتا ہے, جس کہ بعد ہم سوچنے کے عمل کو جاری نہی رکھ پاتے. تو اس سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ اگر تعمیرِ خودی کرنی ہے تو خود کے اندر سے جانبداری ختم کرنی ہوگئی.
اب جب ہماری سوچ غیر جانبدار ہوگئی ہے, تو ہم اپنے پہلے سے موجود خیالات کو مختلف منطقی کسوٹیوں پر پرکھیں گے. اس سے اب اک نئی سوچ ماخوز ہوگی. جو پچھلی سوچ سے ارتقائی طور پر اک درجہ آگے ہوگی.
 سوچ کی ارتقاء میں درکار عوامل میں سے اک علم ہے. ایسا علم جو سوچ کو پروان چڑھائے. اس کے لیے ہمیں علم نافع سے ان علوم کا انتخاب کرنا ہوگا جو ہماری سوچ کو وسعت دینے کا باعث بنے.
ماحولیاتی اثرات, ماحول میں موجود لوگوں کی سوچ اور خیالات کس درجہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ بھی سوچ کی ارتقاء میں مددگار یا رکاوٹ ہوسکتے ہیں.
تو تعمیر خودی کو سمجھنا پہلی روکاوٹ ہے اور سمجھ لیا تو تعمیر خودی کرنا دوسری مشکل .کیوں کہ اس موضوع پر تربیت مفقود ہوگی ہے.
موجودہ حالات میں شاید ہَم نے خود کو معاشی و معاشرتی طور پر مستحکم بنانے کو تعمیر خودی سمجھ لیا ہے . پر دَر حقیقت تعمیر خودی مختلف تعمیری مراحل کے مجموعے کے وقوع پذیر ہونے کا نام ہے. اور نتیجتاً انسان پر اپنی شناخت کا ظہور ہوتا ہے. تب اس کی منفردیت اسے صرف خود کی پیروی کی طرف لے جاتی ہے. اور خودی کی انتہا پر رب کی ذات آشکار ہوتی ہے.