روح صرف ان کی ہی نہی ہوتی جنہیں ہم جاندار سمجھتے ہیں !

آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے پاس دنیا میں ڈھیروں کتابیں لکھیں ہوئی پہنچی ہیں.. ہر دوسرا بندہ عالم بن کے واعظ کیے جا رہا ہے, اور سب کا مقصد بھی انسانوں کی اصلاح کرنا ہے.. پر ہم ہیں کہ اثر ہی نہیں ہوتا… پتا ہے کہ اثر کیوں نہیں ہوتا ؟

کیوں کہ ان الفاظ میں روح نہی رہی, مردہ ہوگئے ہیں, تو کسی پر اثر کیا کریں گے… سوال یہ ہے کہ ان میں سے روح کیسے ختم ہوگئی.. اک بات یاد رہے ہر چیز کے دونوں پہلو مادی اور روحانی جب تک اکٹھے ہیں تب ہی وہ شئے زندہ ہے اور کاملیت کے ساتھ اثر انداز ہو سکتی ہے.. تو جب الفاظ سے روح ہی نکل گئی تو اکیلا ان کا مادی وجود بچتا ہے, اور وہ اس درجہ پر اثر نہی کرتا.. جو ان کا خاصہ تھا.

جب تک ہم جو کہہ رہے ہیں وہ ہم پہ گزرا ہی نہیں, وہ جزبات ہم پہ اترے ہی نہیں, وہ عمل ہم نے خود کیا ہی نہی… تو جتنی مرضی ہم کتابیں لکھ لیں, واعظ کر لیں, واہ واہ تو سمیٹ لیں گے پر لوگوں پر ان الفاظ کی تاثیر چھوڑنے سے قاصر ہونگے.

لوگوں پر حقیقی اثر صرف لفظ نہی کرتے بلکہ ان میں پوشیدہ روح کرتی ہے جو ان کو ادا کرنے والے کی وجہ سے آتی ہے.. جتنا اس بندے کی اپنی روح اور کردار مضبوط ہوگا اتنی ہی اُس سے جنم لینے والے الفاظ میں تاثر ہوگی.. ایسا ہو ہی نہی سکتا کہ ادھر سے ویسے لفظ ادا ہوں, اور سننے والا کی زندگی نہ بدل جائے…. یہ تو ہوگئی ان کے لیے جو لکھاری ہیں, پر ابھی کچھ اور پہلو بھی باقی ہیں..

بعض دفعہ ایسے الفاظ بھی جاری ہوتے ہیں جن میں بہرحال روح تو پائی جاتی ہے.. پر اگلے پر اثر نہی ہو رہا, تو بابا جی, یہاں سننے والے پر وہ تالے ہی نہی جن کی چابی آپ لگا رہے ہیں.. چابی تو ممکن ہو آپ درست لگا رہے ہوں پر اگلے کو تالا ہی مختلف لگا ہو… تو اس حالت میں بھی اثر نہی ہوتا ان الفاظ کا, پر یہاں اک تو یہ مسئلہ اس انسان میں ہے.. پر ہم میں بھی ابھی یہ خامی ہے کہ ماسڑ کی (Master key) کے حامل نہی , ورنہ جیسا مرضی تالا لگا ہوتا ہمارے الفاظ اُسے کھول دیتے…

اور بعض دفعہ روح سے عاری الفاظ بھی پر اثر ہوتے ہیں کیونکہ سننے والے کے سارے تالے پہلے ہی کھلے ہوئے ہیں..

تو اگر تو آپ لکھاری ہیں, عالم ہیں یا استاد ہیں, خود میں بدلاو لائیں تاکہ آپ کے الفاظ میں روح بھی ہو, پھر چاہئے سالوں بعد کسی انجان نے بھی آپ کے لکھے دو لفظ پڑھ لیے اس کی زندگی سنور جائے گی… اور اگر ایسا نہی ہے تو آپ خالی الفاظ کا ہجوم پیدا کر رہے ہیں….
بس اک شکوہ سا تھا خود سے, آج اچانک ہی لفظوں کی صورت بہنے لگا… برداشت کریں.